روشن انہیں کے دم سے ہرسو ہیں ضوفشاں
شمس و قمر ستارے پر نور کہکشاں
خونِ جگر سے ان کے ہرسو بہار ہے
باغِ جہاں میں رنگت عالم میں شوخیاں
غنچوں میں خوشنمائی کلیوں میں رنگ و بو
ہے ان کے دم سے اب تک آباد گلستاں
ویران ہیں نشیمن گرچہ وہی چمن ہے
افسوس شاہِنوں سے خالی ہیں آشیاں
نظارہ کر رہے ہیں آنکھوں کو بند کئے
احساس مر گیا جب کیا سود کیا زیاں
آنکھوں کو کھول کر ہی سوۓ اگر کوئی
کیسے اسے جگاۓ ، بے سود ہے اذاں
رہبر ہیں آج خود ہی ناآشنا سفر
راہوں سے ہٹ گئے ہیں بھولے بھی ہیں نشاں
بیدار کردے ان کو آنکھوں کو کھول دے
منزل سے آشنا کر راہوں کو کر عیاں
محفل ہو یا ہو مقتل وہ شمعِ دل جلا
پروانے اس کی جانب آئیں کشاں کشاں
عزم و جنوں کا پیکر پیدا ہو بزم میں
قدموں میں آگریں گے پھر چرخ و آسماں
جو خواب دیکھتے ہیں آنکھوں کو وا کئے
ہیں اس کے نوجواں ہی گردو کے ہمزباں
جس قوم کے جواں ہوں خالؔد،عمرؔ،علیؔ
وہ کیوں گلہ کرے یہ کہ ہیں وہ ناتواں
مایوسی بزدلی کو چھوڑو بھی جانے دو
اٹھو کرو بھی ہمت ہے دورِ امتحاں
پھر کیوں نہ قافلہ ہو پیہم رواں دواں
پر جوش نوجواں ہوں سالارِ کارواں

1
71
شکریہ محترم