راتیں پاگل کر دیتی ہیں، |
جب آسمان کی چادر پر |
چاند کے پھیلتے دھبے |
اور ستاروں کی بجھتی ہوئی روشنی |
دل کو چھو لیتی ہے۔ |
یہ خاموشی، |
جو پھیلی ہوتی ہے ہر سو |
کسی پراسرار راگ کی طرح، |
کانوں میں سرگوشیاں کرتی ہے، |
دل کے دروازے پر دستک دیتی ہے |
اور اندر کی تنہائیوں کو جگاتی ہے۔ |
ہوا کے نرم جھونکے |
جب گالوں کو چھوتے ہیں، |
اندر کہیں کوئی انجانی سی لہر |
ہلچل مچاتی ہے، |
کچھ پرانی یادیں، کچھ پرانے درد |
دل کے نہاں خانے سے باہر آتے ہیں۔ |
راتیں، |
ایک مسافر کی طرح ہوتی ہیں |
جو اپنا سفر کبھی ختم نہیں کرتا، |
چلتی رہتی ہیں، |
کبھی آنکھوں کے راستے دل میں اترتی ہیں، |
کبھی خوابوں کی سرزمین پر |
نئی کہانیاں بُننے لگتی ہیں۔ |
راتیں، |
اندھیروں میں چھپی ہوئی روشنیوں کی باتیں کرتی ہیں، |
چاند کی ٹھنڈی کرنیں |
جیسے دل کی آگ کو |
سہلا رہی ہوں، |
اور کہیں دور سے |
کسی پرانی، بُھولی ہوئی صدا کی بازگشت |
کانوں میں رقص کرتی ہے۔ |
راتیں پاگل کر دیتی ہیں، |
جب وقت ٹھہر جاتا ہے، |
اور لمحے |
اپنے خول سے نکل کر |
ننگے پیروں زمین پر چلنے لگتے ہیں۔ |
یہ لمحے، |
جو خوابوں کی زنجیر میں بندھے ہوتے ہیں، |
ایک ایک کر کے آزاد ہو جاتے ہیں |
اور پھر… |
یہ راتیں |
پاگل کر دیتی ہیں۔ |
دل میں چھپے راز |
آسمان کی وسعتوں میں بکھرنے لگتے ہیں، |
سوچوں کے دھاگے الجھتے ہیں، |
اور آنکھیں |
خاموشی سے، |
بس دیکھتی رہتی ہیں |
اس پاگل پن کو، |
جو رات کے سناٹے میں |
دلوں پر چھا جاتا ہے۔ |
راتیں پاگل کر دیتی ہیں، |
جب تمہارے بغیر |
یہ دنیا |
اور بھی ویران لگتی ہے، |
جب خاموشیوں کے ہجوم میں |
تمہاری ہنسی کی گونج |
کہیں گم ہو جاتی ہے، |
اور میری سوچیں |
تمہارے پیچھے دوڑتی ہیں |
اندھیروں میں، |
بے سمت، |
بے حد۔ |
یہ راتیں، |
جو کبھی محبت کی گواہ ہوتی ہیں، |
آج |
دلوں کے بیچ |
فاصلے بڑھا رہی ہیں، |
وقت کے ان پیروں کے نشان |
جو ہمارے دلوں میں |
ہمیشہ کے لیے رہ جائیں گے۔ |
راتیں پاگل کر دیتی ہیں، |
جب تنہائی کا سمندر |
آنکھوں کے ساحل سے ٹکرا کر |
دھیرے دھیرے |
ہر چیز کو نگل لیتا ہے، |
اور دل، |
بس انتظار کرتا رہتا ہے |
کسی صبح کا، |
جو شاید کبھی نہ آئے۔ |
راتیں پاگل کر دیتی ہیں، |
اور میں… |
خاموشی سے |
بس اس پاگل پن کا |
حصہ بن جاتا ہوں، |
دور، |
بہت دور… |
جہاں صرف رات ہوتی ہے |
اور ہم ہوتے ہیں |
— پاگل راتیں۔ |
معلومات