درد کو اشک چھپا جائیں تو حیرت کیسی
اب اُجالوں کی حسیں رات سے الفت کیسی
سب بُھلا بیٹھے ہیں، اپنوں نے بھی وعدے توڑے
اب بَھلا اپنے ہی سائے کی ضرورت کیسی
ہم نے غیروں سے بھی باندھی تھی تمنّا دل کی
اب جو ٹوٹا ہے یہ بندھن تو عداوت کیسی
عمر بھر رِستا رہا عشق کا وہ پہلا زخم
اب وہی نام لبوں پر ہے تو حیرت کیسی
ہم نے شیشے کی طرح دل کو سنبھالا اب تک
اب جو ٹوٹا ہے یہ ساغر تو حفاظت کیسی
اشک بھی ضبط کی دیوار گرا دیتے ہیں
اب جو آنکھوں میں تماشا ہے تو آفت کیسی
خواب انکھوں میں نہ چمکے تو گِلہ کیا کرنا
اب جو ٹوٹے ہیں ارادے تو ندامت کیسی
چھوڑ آئے ہیں سبھی پیار کے جگنو ہم بھی
اب جو تاریکی ہے ہر سُو، تو شکایت کیسی

0
13