وقت کو بدلنے میں, دیر کتنی لگتی ہے
اک چراغ جلنے میں, دیر کتنی لگتی ہے
تُجھ کو زُعم ہے اپنے، حسن پر بُہَت, لیکن
دلکشی کو ڈَھلنے میں، دیر کتنی لگتی ہے
اس مُسابَقَت میں ہم, گِر کبھی گئے تو کیا
گِر کے پھر سنبھلنے میں، دیر کتنی لگتی ہے
عاشِقی کے دعوؤں کو، سچ بھی مان لیں، پھر بھی
راستہ بدلنے میں، دیر کتنی لگتی ہے
سر اُٹھائے پھرتا ہے، کیوں تو فانی دنیا میں
سانس کے نکلنے میں، دیر کتنی لگتی ہے
بے وفا ہے وہ، مانا، پر وہ لوٹ آئے تو
زین، دل پگلنے میں، دیر کتنی لگتی ہے

32