گو ہر قدم پہ زندگی میں امتحاں رہا
اتنا گلہ ہے مجھ سے کوئی بد گماں رہا
جتنی بھی اس کے ساتھ مری گفتگو ہوئی
پردہ کوئی شکوک کا ہی درمیاں رہا
نکلا تھا اپنے گھر سے تو وہ آگ ڈھونڈنے
رستے میں آگ کے بھی تو حائل دُھواں رہا
رستے میں آگ کے بھی پر حائل دُھواں رہا
ہم نے دلیل و عقل سے باتیں تو خوب کیں
شک کی زمین پر کھڑا وہ ناتواں رہا
آخر کہا اسے کرو خود ہی معاملہ
باقی ہے استخارے کا ہی اب سماں رہا
لیکن گمان و وہم نے پھر سر اُٹھا لیا
حق کا وگرنہ بار تو ہر جا گراں رہا
گر بد گمانی ہر کوئی دل سے نکال دے
مانیں گے دل میں حسن کا جلوہ عیاں رہا
طارق کرے جو صاف دل اور آئے پھر قریب
کب سیدھا رستہ دیر تک اس سے نہاں رہا

0
57