کس قدر رنج اس کی کہانی میں ہے
میرے اشکوں کا دریا روانی میں ہے
لہجۂ تلخ میری زبانی میں ہے
اک الگ ہی مزہ حق بیانی میں ہے
فکرِ عقبی نجانے کہاں مر گئی
ہر کوئی مبتلا دارِ فانی میں ہے
دل بہلتا ہے شعر و سخن سے مگر
لطف جو اصل ہے نعت خوانی میں ہے
تم عبادت کرو رب کی برنائی میں
اصلِ لطفِ عبادت جوانی میں ہے
اے خدا بخش دے مجھ کو عیش و امنگ
سیلِ غم ہی مری زندگانی میں ہے
اپنے اعمال پر لوگ ہیں مطمئن
تو بھی احسنؔ اسی بد گمانی میں ہے

0
8