| بوسہ نہیں تو لمسِ عنایت کبھی کبھی | 
| کچھ تو خیال و خواب میں رغبت کبھی کبھی | 
| پوچھا جو ہم نے بوسے کا، شرمائے اور پھر | 
| کہنے لگے کہ ایسی شرارت کبھی کبھی | 
| وعدہ رہا پئیں گے نہ ہم روز روز جام | 
| لیکن جنابِ شیخ! اجازت کبھی کبھی | 
| ممکن نہیں حجاب اٹھے اس کا حشر میں | 
| کیا کیا عجب عجب کہے حسرت کبھی کبھی | 
| اکثر تو استعاروں میں کی ہم نے دل کی بات | 
| دینی پڑی ہے پھر بھی وضاحت کبھی کبھی | 
| تنہاؔ رہے ہیں عمر بھر اب ایسا بھی نہیں | 
| حاصل رہی ہے یار کی صحبت کبھی کبھی | 
 
    
معلومات