تُو آ گیا ہے مرے پاس یہ گماں ہے ابھی
یقینِ وصل کو دیکھوں کہ وہ کہاں ہے ابھی
ترے جو ہجر میں گزری ہیں راتیں وہ میری
میں یہ یقین تو کر لوں کہ تُو یہاں ہے ابھی
کہ تیرے بعد رہا ہوں ترے خیالوں میں
میں دیکھتا جو رہا خواب وہ جواں ہے ابھی
نشانیاں تو بہاروں کے آنے کی ہیں سبھی
بہار آ بھی گئی مجھ پہ کیوں خزاں ہے ابھی
کہ ہر طرف تری آمد کا جشن ہونا تھا
کہ میرے چار طرف کیسی یہ فغاں ہے ابھی
مسافتیں بھی ہمایوں رہی طویل یہاں
کہ تُو چلا تھا جہاں سے تو کیوں وہاں ہے ابھی
ہمایوں

0
18