یار باقی نہ پیار باقی ہے
نہ ہی دل کا قرار باقی ہے
جو ملا تھا شراب خانے میں
دوست وہ جانثار باقی ہے
عمر بھر خاک ہی تو چھانی ہے
کون سا اب دیار باقی ہے
ہر گھڑی سوچ ہے یہی لاحق
کون سا اس کا وار باقی ہے
لفظ اس کے بھلا دیئے شاہدؔ
پر جو لفظوں کی دھار باقی ہے

0
31