ظلمت کی گھٹائيں تو چھٹتی ہیں چراغوں سے
وحشت بھی گلستاں کی مٹتی ہے بہاروں سے
اندازہ ہے گر باد و باراں کی ہواؤں کا
"للکارتے ہو کیوں تم طوفاں کو کناروں سے"
جب تذکرہ کرتے ہو اغیار کی خوبی کا
ِگر جاتے ہو پل بھر میں ہمدم کی نگاہوں سے
غنچہ بھی مہکتے ہیں پھولوں کی رفاقت میں
کردار سنورتے ہیں صحبت کی فضاؤں سے
غافل کو کہاں ناصؔر بیدار کرے کوئی
دانا تو وہی ہے بس، جو سمجھے اشاروں سے

0
53