داستاں پھر کوئی اپنے سے عبارت کر لیں
پھر سے اک بار یوں تھوڑی سی شرارت کر لیں
پھر سے رکھ لیتے ہیں بنیاد محبت کی ہم
پھر سے مل کر اسے ہم دونوں عمارت کر لیں
آؤ مل کر یوں بسا لیتے ہیں دنیا اپنی
عہد و پیمان کی یوں پھر سے جسارت کر لیں
قربتوں کے کوئی پھر سے یوں تقاضے دیکھیں
فرقتوں میں بھی کہیں پھر سے مہارت کر لیں
پرسکوں پانی میں کر دیں وہ تلاطم برپا
ہم سکوں اپنے کو پھر سے یونہی غارت کر لیں
صدیاں بھی تو یہاں بس چشمِ زدن میں گزریں
رہ گیا وقت جو یوں پاس طہارت کر لیں
ہم بھی کچھ لے کے یوں کچھ دینے کا وعدہ کر لیں
باہمی مل کے کچھ آپس میں تجارت کر لیں
ہم تہی دست ہیں خالی ہے جو دل غم سے یہاں
دل کی غربت کو بدل کر یوں امارت کر لیں
عہدِ رفتہ کے مناظر بھی نظر میں آئیں
اولیں اپنی محبت کی زیارت کر لیں
بعد مرنے کے ملے گا کہاں یہ درد و غم
خود کو دنیا میں ہمایوں جو بشارت کر لیں
ہمایوں

0
15