ملنے کا اس نے مجھ سے جو وعدہ نہیں کیا
میں نے بھی بار بار تقاضا نہیں کیا
جب سے گیا ہے وہ مجھے بے آس چھوڑ کر
جینے کا تب سے میں نے ارادہ نہیں کیا
مانگی نہیں ہے بھیک کسی کم نگاہ سے
کشکول توڑ ڈالا کشادہ نہیں کیا
خاموش بیٹھے ہیں ابھی تک جانے کیوں مگر
پھر سے ستم گری کا اعادہ نہیں کیا
رسماً سہی وہ آتا مری لاش دیکھنے
اس نے تو میرے واسطے اتنا نہیں کیا
ساغر وہ میرے پاس سے اٹھ کر چلے گئے
محفل سجی تھی میں نے بھی رسوا نہیں کیا

128