| ملنے کا اس نے مجھ سے جو وعدہ نہیں کیا |
| میں نے بھی بار بار تقاضا نہیں کیا |
| جب سے گیا ہے وہ مجھے بے آس چھوڑ کر |
| جینے کا تب سے میں نے ارادہ نہیں کیا |
| مانگی نہیں ہے بھیک کسی کم نگاہ سے |
| کشکول توڑ ڈالا کشادہ نہیں کیا |
| خاموش بیٹھے ہیں ابھی تک جانے کیوں مگر |
| پھر سے ستم گری کا اعادہ نہیں کیا |
| رسماً سہی وہ آتا مری لاش دیکھنے |
| اس نے تو میرے واسطے اتنا نہیں کیا |
| ساغر وہ میرے پاس سے اٹھ کر چلے گئے |
| محفل سجی تھی میں نے بھی رسوا نہیں کیا |
معلومات