آنکھوں نے دیدہ ور نہیں دیکھا |
کہیں وہ با خبر نہیں دیکھا |
ان کو بھی سر بسر نہیں دیکھا |
حسن کا وہ شجر نہیں دیکھا |
سبھی نے مسکراتے لب دیکھے |
کسی نے دیدۂ تَر نہیں دیکھا |
اس سے کیا حال گھر کا پوچھتے ہو |
دس برس جس نے گھر نہیں دیکھا |
میں اسے دیکھنا تو چاہتا تھا |
پھر پلٹ کر مگر نہیں دیکھا |
آج محفل میں سب کی عید ہوئی |
آج بھی وہ ادھر نہیں دیکھا |
کس طرح قتل کرتی ہے وہ نظر |
دیکھ لے تو نے گر نہیں دیکھا |
ہم نے بھی ایسے ہی دکھایا زخم |
اس نے بھی دیکھ کر نہیں دیکھا |
پھر ہوا یوں کہ زخم بھر گئے سب |
جسم و جاں اپنا تر نہیں دیکھا |
پھر ترے ہجر میں بھی جانِ جاں |
پہلا سا وہ اثر نہیں دیکھا |
چھوڑا جو ایک بار در میں نے |
عمر بھر پھر وہ در نہیں دیکھا |
کر لی ہجرت پرندوں نے جب سے |
اس شجر پر ثمر نہیں دیکھا |
سب نے میرے گناہ ہی دیکھے |
اس کے پاؤں پہ سر نہیں دیکھا |
معلومات