یوں خواب دکھا کر گیا وہ جاتے ہوئے
دل کو بھی الجھا گیا وہ جاتے ہوئے
چپ چاپ نگاہیں چرا کر چل دیا
اک زخم نیا دے گیا وہ جاتے ہوئے
آنکھوں میں تماشا بہت چھوڑ گیا
دل میں بھی دھواں سا بھر گیا وہ جاتے ہوئے
کچھ دیر رکا، کچھ کہا، کچھ نہ کہا
پھر خود ہی خفا ہو گیا وہ جاتے ہوئے
جو حرف بچا تھا وہ بھی لب پر نہ رہا
سب کچھ ہی چھپا لے گیا وہ جاتے ہوئے
میں لوٹ کے آیا تو خالی تھا مکان
سب کچھ وہاں سے اُٹھا وہ جاتے ہوئے
اب خواب بھی کہتے ہیں حیدر سن لو
ہم کو بھی جلا کے گیا وہ جاتے ہوئے

0
10