بات ایسی تو نہ تھی تم نے بڑھائی جیسے |
یہ بھی کیا شانِ وفا ہے جو نبھائی جیسے |
تم مرے شوق کی تحقیر کئے جاتے ہو |
پیار کی ہم سے کراتے ہو گدائی جیسے |
تھے رقیبوں سے مراسم جو چھپائے تم نے |
ہر کہانی بھی سبھی جھوٹ بنائی جیسے |
تیری ہر بات کا احساس رہا ہے مجھ کو |
میری ہر بات کہ لگتی ہو پرائی جیسے |
تجھ سے تجدیدِ وفا پھر سے میں کرتا ہوں ابھی |
کوئی صبحِ نو کہیں سے نکل آئی جیسے |
کیسی قربت تھی یہ کیسا ہے بچھڑنا تیرا |
نہ جدائی بھی لگے تم کو جدائی جیسے |
تو نے تو چھوڑ دیا مجھکو تھا برسوں پہلے |
اب تو اک رسم تھی دنیا کی نبھائی جیسے |
تیرتی ہیں تری یادیں یوں بدن میں میرے |
کسی خوشبو کی طرح مجھ میں سمائی جیسے |
ترکِ الفت کا جو احوال سنایا تم نے |
بات تو غیر سے کی مجھ کو سنائی جیسے |
جانے کیا سحر تو رکھتا ہے یہ گفتاری میں |
ہو گئی ساتھ ترے ساری خدائی جیسے |
تھا کوئی اور ہی منظورِ نظر محفل میں |
کرنے تفریق جو محفل ہو سجائی جیسے |
یہ ہمایوں کے نہیں بس میں کرے ترک تجھے |
سوزِ عشق ایک ہی ہے اس کی کمائی جیسے |
ہمایوں |
معلومات