جو بھی ماں باپ کو ستاتے ہیں
وہ بھی تاعمر روتے رہتے ہیں
اشکِ مظلوم جب نکلتاہے
عرش کے سب ستون ہلتے ہیں
خوف جن کو ہے آخرت کا وہ
ہر قدم پھونک پھونک رکھتے ہیں
ہے روانی میں زندگی لوگو
ٹھہرے پانی میں کیڑے پڑتے ہیں
خوفِ دشمن نہیں ہمیں اب تو
آستینوں میں یار پلتے ہیں

162