بہ وقتِ رخصت ہم کو ، وہ مُڑ کے دیکھا ہوتا
میں سوچتا ہوں کتنا، حسیں نَظَارہ ہوتا
پہیلیوں کو اکثر، میں بوجھتا رہتا ہوں
کہ کب کہاں کیا ہوتا، کہ وہ ہمارا ہوتا
قبول جب جب میری ، دُعا ہوئی تو چاہا
کہ کاش تجھ کو، اس پل، خدا سے مانگا ہوتا
تو خوب رو ہے تجھ کو، بچھڑنے کا کیا ہی غم
تو سانولا ہوتا تو، یہ دکھ سمجھتا ہوتا

0
2
31
زین صاحب اپنی اردو بہتر کیجیئے تو آپ اچھی شاعری کر سکیں گے - اور یہ صرف مطالعہ ہی سے آتا ہے -
بوقتِ رخصت ہم کو ، وہ مُڑ کے دیکھا ہوتا
== وو مڑ کے دیکھا ہوتا اردو میں کوئی گرامر نہیں ہے - یا تو ہوتا "اس نے مڑ کے دیکھا ہوتا"
یا پھر ہوتا "وہ مڑ کے دیکھتا " - ان کے علاوہ یہ جملہ غلط ہے -

تو خوب رو ہے تجھ کو، بچھڑنے کا کیا ہی غم
== کیا ہی کا یہ مقام نہیں ہے - کیا ہی ماضی شرطی یا ماضی تمنائی میں استعمال ہوتا ہے - جیسے "کیا ہی اچھا ہوتا اگر ---- " یہاں صحیح استعمال ہوتا "کیا غم" یہ بیچ میں ہی لگا دینا آج کل ہندوستان میں بولا جارہا ہے جو اس طرح غلط ہے -

اس کے بعد مضمون پہ توجہ دیجیئے
پہیلیوں کو اکثر، میں بوجھتا رہتا ہوں
کہ کب کہاں کیا ہوتا، کہ وہ ہمارا ہوتا
== کب کہاں کیا ہوتا تقدیر کے کھیل ہیں انھیں پہلیاں نہیں کہہ سکتے


تو خوب رو ہے تجھ کو، بچھڑنے کا کیا ہی غم
تو سانولا ہوتا تو، یہ دکھ سمجھتا ہوتا
== سانولا بھی اردو میں محبوب کی خوبصورتی کے لیئے ہی استعمال ہوتا ہے آپ نے سانولی سلونی محبوبہ کی اصطلاح سنی ہوگی - آپ یہاں خوب رو کی مناسبت سے سیاہ رو کہنا چاہ رہے ہیں مگر سانولا لفظ یہ مطب نہیں ادا کرتا -

آپ کی رہنمائی کا شکریہ۔ اگر آپ میری دوسری غزلوں پر بھی روشنی ڈال سکیں تو۔
شکریہ

0