ہر طَرف ہی ضُو فِشا ہے یار کا چہرہ
ہر جَگہ ہی رُو نُما ہے یار کا چہرہ
دیکھتے ہی اُس کا جَلوہ، کھو گیا ایسے
کوئی جیسے دیکھتا ہے یار کا چہرہ
جب مِٹائی اپنی صُورت اُسکی چاہَت میں
تب مُصَوّر نے دِیا ہے یار کا چہرہ
فانی ہر شے ہے جہاں کی، یار ہے دَائم
مَظھَرِ نُور و بَقا ہے یار کا چہرہ
قَبر سے مجھ کو یہ کہہ کے لے گئے نُوری
تیرے ملنے کو سَجا ہے یار کا چہرہ
زاہِدو ں نے چاہی جنّت ، میں نے وَجْهُ اللّٰه
میری قِسمت میں لِکھا ہے یار کا چہرہ
دیکھ کے صورت مِری، دِیوانے یوں بولے
تیرے چہرے میں چُھپا ہے یار کا چہرہ

47