ہے جو اپنے قرار کا دشمن
ہے وہی اِس بہار کا دشمن
قابلِ اعتماد کوئی نہیں
"یار ہوتا ہے یار کا دشمن"
ہمنشیں کو ہی وہ سمجھتے ہیں
اجڑے باغ و دیار کا دشمن
فتنہ انگیزی حُسن نے ڈھائی
کس کو اب سمجھیں پیار کا دشمن
ہو چلا سادہ لوح پر شبہ ہے
ناز و غمزہ، خمار کا دشمن
بد چلن پستی کا سبب ناصؔر
اور ہے وہ وقار کا دشمن

41