اچھا ہوا کہ پاؤں میں چھالے نہیں پڑے
ورنہ تو دل میں اپنے بھی جالے نہیں پڑے
آنکھیں ہیں جھیل سی تو سمندر کا روپ ہے
یعنی کہ حسنِ یار پہ نالے نہیں پڑے
اب تو کسی کی جان ہیں صدقے جناب کے
لیکن مجھے زرا سے بھی لالے نہیں پڑے
کپڑے سفید رنگ کے میں نے دیے اسے
وہ بھی فراق میں زرا کالے نہیں پڑے
دل پر کسی کے مہر ہے میرے ہی نام کی
دل پر کسی کے اب کبھی تالے نہیں پڑے
اس کو عطا محبتیں ملتی چلیں گئیں
شاعر سے اس حسینہ کے پالے نہیں پڑے

0
53