اچھا ہوا کہ پاؤں میں چھالے نہیں پڑے |
ورنہ تو دل میں اپنے بھی جالے نہیں پڑے |
آنکھیں ہیں جھیل سی تو سمندر کا روپ ہے |
یعنی کہ حسنِ یار پہ نالے نہیں پڑے |
اب تو کسی کی جان ہیں صدقے جناب کے |
لیکن مجھے زرا سے بھی لالے نہیں پڑے |
کپڑے سفید رنگ کے میں نے دیے اسے |
وہ بھی فراق میں زرا کالے نہیں پڑے |
دل پر کسی کے مہر ہے میرے ہی نام کی |
دل پر کسی کے اب کبھی تالے نہیں پڑے |
اس کو عطا محبتیں ملتی چلیں گئیں |
شاعر سے اس حسینہ کے پالے نہیں پڑے |
معلومات