جب بھی دیکھا اسے دیکھا ہے بڑے پیار کے ساتھ
سامنے اس کے نہ گویا ہوئے اظہار کے ساتھ
کیسے سمجھاؤں تمہیں کیسی تھی لذّت ان میں
وہ جو لمحے مرے گزرے ، مرے دلدار کے ساتھ
چار سُو پھیلا تباہی کا ہے ساماں لیکن
ہے وہی امن میں ، شامل ہے جو ، الّدار کے ساتھ
وہ محبّت کی زباں کیا مجھے سکھلائیں گے
گفتگو جب بھی کریں ، دیکھیں مجھے عار کے ساتھ
وہ جفا کرتے رہے ، میں بھی ستم سہتا رہا
وہ رہے پیچھے ، میں آگے بڑھا ، رفتار کے ساتھ
آئیں گے حضرتِ عیسیٰ ، جو مسیحا بن کر
کیا سکھائیں گے مجھے ، دین ، وہ تلوار کے ساتھ؟
اس سے بڑھ کر تو کبھی اس نے ستم ڈھایا نہیں
آ گیا گھر پہ مرے ، آج وہ اغیار کے ساتھ
طارق اپنی تو یہی دل سے دعا ہے یا ربّ!
زندگی ایسی گزاریں ، رہیں ، ابرار کے ساتھ

0
13