کیا ان کی مدح کرتے ہم اپنی زبان سے
فرصت نہیں ملی ہمیں اپنے بیان سے
ہر ذرہ اس زمیں کا ہے کیف و سرور میں
وہ سیر کی غرض سے جو نکلیں مکان سے
مجھ کو سنبھالیے کہ مرے ہوش اڑ گئے
آیا وہ ملنے مست قیامت کی شان سے
نظریں ملا کے ہم سے تم اَبرُو پہ بَل نہ دو
لگتا ہے تیر دل پہ نکل کر کمان سے
خواہانِ عرش ہیں وہ طلب گارِ گَرد میں
مجھ کو زمیں سے عشق انہیں آسمان سے
دنیا ہے تنگ مجھ سے یہ کرتے ہیں سب گلہ
میں خود یہاں پہ تنگ ہوں اپنی ہی جان سے
حاصل ہوا سکون ہے حسانؔ کو یہاں
تم نے سنا ہے کذب یہ کس کی زبان سے

0
11