رت بدلتی ہے پر خطر نہ سمجھ
روٹھ جائے گی کچھ سحر نہ سمجھ
دیتی ہے تیز یہ ہوا دستک
ڈر ہے درپیش، بے ضرر نہ سمجھ
رہتی آگاہی حال سے ہمیں ہے
آندھیوں سے بھی بے خبر نہ سمجھ
جگنو کی روشنی ہے ایک نشاں
"ان چراغوں کو معتبر نہ سمجھ"
نیکیوں کی تلاش جاری رکھیں
عیب جوئی کو بھی ہنر نہ سمجھ
دھوکہ سے احتیاط لازمی ہو
فانی دنیا کو اصلی گھر نہ سمجھ
امتحاں ہے ضروری ناصؔر پر
بے وفا کو تو منتظر نہ سمجھ

0
74