دکھ ہی ملتا ہے سدا یار کے لہجے سے مجھے
کاٹتا رہتا ہے لفظوں بھرے شیشے سے مجھے
اس کا ہر آن اسی واسطے سہہ جاتا ہوں
خوف آتا ہے بہت یار کے جگڑے سے مجھے
اے خدا قوتِ برداشت کو اعلٰی کر دے
توڑا جائے گا ابھی اور سلیقے سے مجھے
تیرا چھوڑا ہوا کہلاؤں گا میں بھی اک دن
حادثہ ہوگا یہ معلوم ہے اچھے سے مجھے
چاہتا ہوں کہ نکل جاؤں میں سب سے آگے
کھینچا جاتا ہے کوئی زور سے پیچھے سے مجھے
گالیاں سن کے تری ، فرق مجھے پڑتا نہیں
کاش تم دیتے اگر گالیاں پہلے سے مجھے
آپ سے تم ہوئے اب تو ہی کہا کرتا ہے
کتنا اعلیٰ کیے جاتا ہے وہ رتبے سے مجھے
ہار کر تجھ سے بھلا یوں ہی نہیں خوش ہوں میں
جیت ملتی ہے ترے کھیل میں ہارے سے مجھے
مفلسی حال میں خالدؔ کی جوانی ہے مگر
اے مرے یار نا تولو کبھی سکّے سے مجھے

0
56