نور عالم خلیلُ الْاَ مِینِی گئے |
ابرِغم، بر اُفُق مےکدہ چھاگئے |
پینے والے مکمل جو مدہوش تھے |
دفعتاً چونک کر ہوش میں آگئے |
صاف، پیمانۂ چشمِ رندان میں |
نقشِ ساقی ابھرتے، ہیں دیکھے گئے |
اشک شفّاف رندوں کی آنکھوں سے جب |
ڈھلکے عارض پہ تو غم رقم کرگئے |
وا ہوۓ در تجدُد کے ان سے کئی |
راستے، وہ، نئے، فن میں دکھلا گئے |
آہ، تربت کی خاکی ردا، اوڑھ کر |
مرقدِ قاسمی میں ہیں وہ سوگئے |
معلومات