تیرِ نظر چلا تھا جو ہر دل پہ چل گیا
میں لڑکھڑا گیا تھا مگر پھر سنبھل گیا
یہ حادثہ بھی زندگی میں بارہا ہوا
میں سامنے ہوا تو وہ رستہ بدل گیا
یوں تو سنبھال کر رکھے میں نے سبھی قدم
وہ سامنے ہوا مرا پاؤں پھسل گیا
ہم ہی نہ تھے جو حسن سے مرعوب ہو گئے
شاعر بھی دیکھ کر اسے کہہ کر غزل گیا
آسان تو نہ تھا اسے ملنا کہ بھیڑ تھی
نادان دل تو دیکھ کر اس کو مچل گیا
دعوت مری جو کی وہاں سب کو بلا لیا
پھر دیکھتے ہی دیکھتے نقشہ بدل گیا
اک سرسری نگاہ تو مجھ پر بھی پڑ گئی
پھر اس کے ذہن سے مرا چہرہ نکل گیا
ناراض تھا بہت مرے اعمال دیکھ کر
کمزور مجھ کو جان کر غصّہ نگل گیا
میں نے جہاں بھی بات کی انسان ہی کی کی
پتھر بھی داستاں مری سُن کر پگھل گیا
طارق ہر ایک ہو گیا صد جان سے نثار
دیکھا جو پیار حسن کے جلوے میں ڈھل گیا

0
21