یہ نظارہ سمجھ سے ماورا ہے
کہ ہر سایہ ہر اک قد سے سوا ہے
بظاہر مسکراہٹ ہے لبوں پر
مگر اندر کا انساں رو رہا ہے
اسے مجھ سی نہیں کیوں بے قراری
دلوں کا گر دلوں سے رابطہ ہے
مجھے ڈر ہے کہیں پتھرا نہ جاؤں
مرا احساس گھٹا جا رہا ہے
خدا جانے حبیب اندر سے کیا ہو
بظاہر تو بہت ہی پارسا ہے

0
42