یہ نظارہ سمجھ سے ماورا ہے |
کہ ہر سایہ ہر اک قد سے سوا ہے |
بظاہر مسکراہٹ ہے لبوں پر |
مگر اندر کا انساں رو رہا ہے |
اسے مجھ سی نہیں کیوں بے قراری |
دلوں کا گر دلوں سے رابطہ ہے |
مجھے ڈر ہے کہیں پتھرا نہ جاؤں |
مرا احساس گھٹا جا رہا ہے |
خدا جانے حبیب اندر سے کیا ہو |
بظاہر تو بہت ہی پارسا ہے |
معلومات