انداز اُس کی دھڑکنوں کا دل میں آ گیا
کچھ اس طرح سے وہ مرے دل میں سما گیا
جانا ہے اس کے حُسنِ تلطّف کو جس قدر
میرے دل و دماغ پہ چہرہ وہ چھا گیا
تھکتی نہیں زبان مری اُس کے ذکر سے
کی جب بھی بات اُس کا ذکر لب پہ آ گیا
کوشش تھی یہ زمانے کی مجھ سے رہے وہ دور
میں جس طرف گیا ہوں وہیں پر وہ آ گیا
معلوم ہو گا اُس کو دلِ مضطرب کا حال
وہ آیا میرے خواب میں تو مسکرا گیا
وہ مہرباں ہوا تو خدا مہرباں ہوا
دشمن نے جب یہ دیکھا تو وہ بوکھلا گیا
روشن ہوا ہے چاند سا چہرہ وہ نُور سے
جو اس کے سامنے گیا نوروں نہا گیا
طارق حیات و موت کی ہے اتنی داستاں
آیا یہاں میں پیار کیا اور چلا گیا

0
17