اٹھ لا علم دن یونہی ڈھلتے ہیں
باندھ رخت، اب گھر کو چلتے ہیں
نا رہے گا قُرب، آشْناؤں میں
ہے دنائی یہ اب سنبھلتے ہیں
کر کے ورد تیرے ہی نام کے
باغِ سحر میں پھول کِھلتے ہیں
سلگے جب یہ دہلیزِ قلب میں
رفتہ رفتہ آتش میں جلتے ہیں
ہےیہ راز میں پنہاں میرا دل
بن رٙاکھ رحمت پھر رب سے ملتے ہیں

360