کسی نے کی بات آج اپنے حقوق کی |
یہ کب سے بھکاریوں کے بن گے حقوق بھی |
ہماری یہ بات بن گئی بس مذاق ہی |
بے عقلی بے غیرتی کے ہیں درجے آخری |
مرن سے نہیں ڈرے ہیں لڑنے سے ڈر گئے |
کہ سودے حرام کے کیے پیٹ بھر لیے |
جھکا کر کے سر کو سننا ہم سیکھ ہی چکے |
اسی طرح بول سکتے ہیں ہم یہ بھول گے |
زباں دی تو بیٹیوں پہ غیرت بھی جاگی ہے |
بڑے دل سے دشمنی لی ہے اپنی نسلوں سے |
کیا سوچ کے چلے سبھی چھوڑ کر مجھے |
سگی ماں کا لاڈ اور ہے سوتیلی کا ہے اور |
بڑے بیج بو گئے تھے ہم پھل وہی لیں گے |
اُسے مار دوں گا میں اِسے مار دوں گا میں |
محبت سے سانپ پالے ہیں آستینوں میں |
ہمارے ہی سر ہمارے اپنوں کا خون ہے |
یہ لاشیں ہماری ہیں یہ لاشیں ہماری ہیں |
زمیں قبر کی بے غیرتوں کو جگہ نہ دے |
یہ جنگاہوں سے فرار ہم ہیں چھپے ہوئے |
کرایوں کے آشیانوں میں ہیں بسے ہوئے |
ہمی گیدڑوں کو شیر تسلیم کر چکے |
جھکا کر کے سر کو اپنا ہی سر کٹا چکے |
چمکتے ہوئے کسی کے بوٹوں کو دیکھ کر |
تو اپنے سروں کے تاج قدموں میں رکھ دیے |
نہیں اعتبار اپنی شمشیروں پے ہمیں |
نہ ہی خود پہ اور خدا کا کوئی یقیں ہمیں |
وہ ایجاد کی روش فراموش کر چکے |
غلامی کے اس سحر سے سرشار ہو چکے |
اسی طرح ہم نے لو ترقی بڑی ہے کی |
ہمارے تو نام کی وہاں گالی بن گئی |
یہ امداد بند ہونے کے ڈر سے جاگیے |
کہ اب مقصدِ حیات اپنا تلاشیے |
فقط ہم شہادتوں کی کیوں لیں سعادتیں |
ہمی امن امن کیوں کھلیں جبر ہم سہیں |
کہ اب احتجاج کی نہیں، اب جہاد کی |
کریں کوئی بات ،بات اب تو قصاص کی |
کہ اک دفعہ سر اٹھا کے اپنا تو دیکھ لیں |
کہ روئے زمیں سے سارے دشمن ہی مٹ گئے |
تماشا ہی دیکھتے ہیں چپ چاپ دور سے |
ملے تو بغیر سوچے غیرت خرید لیں |
معلومات