زندگی کا گلا مروڑ دیا
تیرا شکوہ بھی ہم نے چھوڑ دیا
آخری جام تھا ہمارے ہاتھ
ہم نے وہ آخری بھی توڑ دیا
جب بھی آیا سوال بوسے کا
آپ حضرت نے منہ بسوڑ دیا
ملک الموت جب قریب آیا
ہم نے پکڑا اسے جھنجوڑ دیا
نبض کاٹی تمھارے شیدا نے
دل جگر لخت لخت جوڑ دیا
جام پر شیخ تلملا اٹھا
ایک انگور کیا نچوڑ دیا
ہجر میں صبر کر کے بیٹھ رہے
پاؤں میں آبلہ تھا، پھوڑ دیا
جا او تنہاؔ! تری سخن فہمی
میرؔ صاحب کا نام بوڑ دیا

0
137