یہ امتحان عجب مجھ سے آسماں چاہے
کہ میرے خوں کا پیا سا مری اماں چاہے
الٰہی تن کا جہاں کیسے میں رکھوں قائم
تری رضا بھی اگر مجھ سے جسم و جاں چاہے
اس اتفاق پہ حیران کیوں نہ ہوں مجھ کو
زمیں سلام کرے اور آسماں چاہے
یہ لازمی ہے چمن کو نکھار دینے میں
وہ شاخ و گل نہ رہیں جس کو باغباں چاہے
حبیب کاش میں ایسے مقام کو چھولوں
جہاں زمانہ فقط میری ایک ہاں چاہے

0
33