اُن کی تَجلّیوں میں ایسا سُرُور ہے
مُوسٰیؑ پہ بیخُودی ہے مَستی میں طُور ہے
اپنی تَجلّیوں سے وہ تو نِہال ہیں
تُجھ میں بھی ہے تَجلّی تُجھ میں بھی نُور ہے
عشقِ بُتاں سے ہم کو عِرفان یہ مِلا
سارے بُتوں میں اُن کا نُورِ ظُہُور ہے
ایسے نہیں وہ مُجھ کو نائب بَنا گئے
میرا بھی اُن سے کوئی ناتہ ضَرُور ہے
تُجھ سے بھی بڑھ کے کوئی کیا بَد نَصیب ہے
بیٹھے ہوئے ہیں تُجھ میں پھر بھی تُو دُور ہے
جھلکے ہے حُسنِ جاناں تیرے شَباب سے
خُود کو نہ دیکھا تم نے کس کا قصور ہے
تسبیح میں مَگن ہیں ذَرّے یہ خاک کے
بے جان چیز کو بھی کتنا شُعُور ہے
مِٹّی کے اے کِھلونے ٹُوٹے گا ایک دن
ہَستی ہے خاک تیری کیسا غُرُور ہے
عاصِی نہ کر تَفاخُر اپنے گُناہ پر
دو اَشک ہی بَہا لے رَب تو غَفُور ہے
اِعلان ہو رہا ہے رَحمت سمیٹ لو
پھیلاؤ اپنی جھولی وقتِ سَحور ہے
حافظ کو دیکھتے ہی مولا نے یوں کہا
میرا یہی تو شاکر عبدِ شَکور ہے

28