ہم نے دل کو پگھلا دیکھا سردیوں کی رات میں
اس نے ہم کو روتا پایا رات کے لمحات میں
شاذ دیکھا ہے کسی نے اپنے من میں جھانک کر
کہکشائیں ہیں ہزاروں کائناتِ ذات میں
آدمی کو آدمی سے ربط ہے اب خال خال
سب محبت ڈھونڈتے ہیں جیب کے آلات میں
خوشبوئے شعر و بیاں اور پیار کی جادوگری
سُر بھی اب مفقود ہے جو تھی کبھی نغمات میں
مسکراہٹ ہے تری میری مسرت کی وجہ
جب تو مجھ سے ہو خفا گِھر جاتا ہوں خدشات میں
لاکھوں کُتب و مدرسے تو ان گنت علم و فنون
دَیں کہاں وہ گیان جو، ہے عشق کےصفحات میں
پھول ہیں کانٹے ہوئے، پارہ قمر کی روشنی
ہر شے بے معنی ہوئی الفت نہیں جذبات میں
نفس دشمن تیرا راشد دنیا ہے اک دھوکا گھر
اس کا روشن رخ ہے رہبر ایسے سب ظلمات میں

159