گلوں کی شوخی میں جان و دل کو بہم اڑا دو، مجھے دعا دو
مریضِ الفت ہوں مجھ کو یارو کوئی شفا دو، مجھے دعا دو
مٹا کے میرا وجودِ ہستی خیالِ برہم کے مرحلے سے
سکوتِ دل میں لہو کی گردش کا آسرا دو، مجھے دعا دو
سنا ہے شاخِ ہنر پہ پھر سے بہارِ مدحت لگی ہے پھلنے
مری غزل کو بھی اس کے سایے میں تم سجا دو، مجھے دعا دو
خبر ملی ہے کے لوٹا ہے رہبروں نے اپنے ہی قافلے کو
سو مجھ شکستہ کو دشتِ الفت میں تم چھپا دو، مجھے دعا دو
میں ان دنوں کی نوا ہوں بلبل بھی جب چمن میں تھی رقصِ پیہم
مجھے گزشتہ فغاں کی چاہت کا نقشِ پا دو، مجھے دعا دو
میں زندگی کے حسیں مراکز میں تلملایا ہوا دیا ہوں
مجھے دریچے میں تم جلا کر کے پھر بجھا دو، مجھے دعا دو
کوئی مزاجِ شگفتہ کاوش گلوں کے بن میں بکھر گیا ہے
کوئی صدائیں لگا رہا ہے مجھے دعا دو، مجھے دعا دو

0
88