سخت احتیاج میں بھی سہارا نہیں ملا |
اپنوں کی بھیڑ رہتے ہمارا نہیں ملا |
جس کو نگاہوں سے کبھی تھا ہم نے کھو دیا |
"راہِ وفا میں پھر وہ دوبارہ نہیں ملا" |
پتوں پہ اوس ہے نہ گلوں میں ہے تازگی |
گلشن میں روح بخش نظارہ نہیں ملا |
داغِ مفارقت سے ہُوئے دم بَخُود بہت |
بعدِ فراق کچھ بھی گزارہ نہیں ملا |
دلبر کی دید کے لئے ناصؔر ہے مضطرب |
مدت گزر گئی پہ اشارہ نہیں ملا |
معلومات