سخت احتیاج میں بھی سہارا نہیں ملا
اپنوں کی بھیڑ رہتے ہمارا نہیں ملا
جس کو نگاہوں سے کبھی تھا ہم نے کھو دیا
"راہِ وفا میں پھر وہ دوبارہ نہیں ملا"
پتوں پہ اوس ہے نہ گلوں میں ہے تازگی
گلشن میں روح بخش نظارہ نہیں ملا
داغِ مفارقت سے ہُوئے دم بَخُود بہت
بعدِ فراق کچھ بھی گزارہ نہیں ملا
دلبر کی دید کے لئے ناصؔر ہے مضطرب
مدت گزر گئی پہ اشارہ نہیں ملا

0
54