کچھ لے گئے ہیں دور ہواؤں کے سلسلے
ہیں درمیاں ہمارے خلاؤں کے سلسلے
رستہ بدل کے چلنے کی عادت نہیں ہمیں
سو آ کھڑے ہیں بیچ جفاؤں کے سلسلے
جینا محال ہے ہمیں دنیا کی بھیڑ میں
دشمن ہیں راہ میں کئی دریاؤں کے سلسلے
اپنی تلاش میں ہی جو گم آج ہم ہوئے
اب ڈھونڈتے ہیں مل کے دعاؤں کے سلسلے
آنکھوں میں بھر دیے ہیں زمانے نے اشک یوں
مایوس سب ہوئے ہیں گھٹاؤں کے سلسلے
لغزش پہ اپنی دیکھ تو اٹھتی ہیں انگلیاں
نظروں میں ہیں سبھی کی خطاؤں کے سلسلے
شاہد نہیں ہیں دل میں تمنا نہ حسرتیں
ہیں جو ازل سے جاری سزاؤں کے سلسلے

0
64