کچھ لے گئے ہیں دور ہواؤں کے سلسلے |
ہیں درمیاں ہمارے خلاؤں کے سلسلے |
رستہ بدل کے چلنے کی عادت نہیں ہمیں |
سو آ کھڑے ہیں بیچ جفاؤں کے سلسلے |
جینا محال ہے ہمیں دنیا کی بھیڑ میں |
دشمن ہیں راہ میں کئی دریاؤں کے سلسلے |
اپنی تلاش میں ہی جو گم آج ہم ہوئے |
اب ڈھونڈتے ہیں مل کے دعاؤں کے سلسلے |
آنکھوں میں بھر دیے ہیں زمانے نے اشک یوں |
مایوس سب ہوئے ہیں گھٹاؤں کے سلسلے |
لغزش پہ اپنی دیکھ تو اٹھتی ہیں انگلیاں |
نظروں میں ہیں سبھی کی خطاؤں کے سلسلے |
شاہد نہیں ہیں دل میں تمنا نہ حسرتیں |
ہیں جو ازل سے جاری سزاؤں کے سلسلے |
معلومات