چراغوں کے ہوتے ہیں شب بھر خسارے
ہماری ہوا سے نہیں بنتی پیارے
تجھے کیا خبر کیا ملا اس سفر سے
یہ بستی یہ جنگل یہ رستے نکھارے
خضر ایک ایسا میسّر ہو کوئی
ہمیں عشق کی منزلوں سے گزارے
جو اسرارِ ہستی کو عریاں دکھائے
سرِ بزم جو یار کا رُوپ دھارے
یہ اک خانقاہ و مجاور بہ دریا
بقا کے سفر کے ہیں یہ استعارے
نجانے کہاں تک لے جائے گا تُم کو
فقط اک مسلسل تعلق دُلارے
نہ کمتر نمو میں، نہ افکار میں ضد
یہ کاشفؔ کی پرواز کے ہیں ستارے

0
157