جہاں پہ ہم تھے وہاں پر قیامتیں تھیں بہت
اکال* اِس طرف اور اُن کو راحتیں تھیں بہت
امیرِ شہر پہ اس کی نوازشیں تھیں بہت
خدا سے اس لیے مجھ کو شکایتیں تھیں بہت
کسی نے لوٹا وطن پر کسی نے مذہب پر
اسی لیے تو یہاں پر مصیبتیں تھیں بہت
بسا کہ اس کو رکھا عمر بھر تصور میں
نہ تھا وصال میسر واں فرقتیں تھیں بہت
جو میرے ساتھ ہیں ان سے یاں دوریاں ہیں بہت
مجھے جو چھوڑ گئے ان سے قربتیں تھیں بہت
*قحط

0
47