ہمّ و غم بولتا ہے کون ہوں میں
ہاں ستم بولتا ہے کون ہوں میں
درد ظاہر بھی ہو جو چہرے سے
کب بھرم بولتا ہے کون ہوں میں
چیختا ہے خموش رہ کر بھی
یہ قلم بولتا ہے کون ہوں میں
نالۂ ہجر آہ بنتا ہے
گریہ کم بولتا ہے کون ہوں میں
آبلہ پا ہوں پھر بھی چلتا ہوں
ہر قدم بولتا ہے کون ہوں میں
سب سے گر اختلاف رکھتا ہے
کیوں دھرم بولتا ہے کون ہوں میں
ہر گھڑی ہو رہا ہے مجھ پر جو
وہ کرَم بولتا ہے کون ہوں میں
بت نکالے گئے وہاں سے تو
اب حرم بولتا ہے کون ہوں میں
فیصلہ اس کا آخری طارق
جب حَکَم بولتا ہے کون ہوں میں

0
10