خیر کے دن آنے کی میرے دعا دیتا رہا |
عافیت چھائی رہے ایسی صدا دیتا رہا |
عزر لاکھوں وصل کے ہر بار ہی کرتا رہا |
وہ مجھے خوابوں میں ملنے کی سزا دیتا رہا |
باتیں اکثر ٹالنے کی کوششیں بھی ہوتی پر |
عہد و پیماں ساتھ رہنے کے سدا دیتا رہا |
زخم کو ہنستے پی جانا اُس کی عادت سی بنی |
جان سے بڑھکر بھی چاہت کا صلہ دیتا رہا |
غمگساری کُوٹ کر فطرت میں چھائی رہتی تھی |
ٹوٹے اپنے دل کو بھی مرہم، دوا دیتا رہا |
ہمسفر کا فرض خوش اسلوبی سے پورا کیا |
دھیان کا انداز بھی پیارا، جدا دیتا رہا |
زندگی میں سادگی ناصؔر بہت اپنائی جو |
راست بازی کو ہمیشہ راستہ دیتا رہا |
معلومات