اپنے ہاتھوں سے مِرے اشک ہٹانے والے
اب کہاں ملتے ہیں روٹھے کو منانے والے
اب مجھے نیند نہیں آتی ستاروں کی طرح
اب نہیں ساتھ مِرے مجھ کو سلانے والے
اس نے پوچھا ہے تعارف جو ہمارا تو کہو
ہم ہیں مسکان سے اشکوں کو چھپانے والے
مے کدے آج بھی بستی میں اگرچہ ہیں بہت
اب نہیں ملتے وہ آنکھوں سے پلانے والے
خوفِ تہمت نے اسامہ سے کیا اس کو جدا
اب تو خوش ہیں نا سبھی لوگ زمانے والے

92