بھُول کر شکوے غموں کے راحتوں کا کر شمار |
صحت اور ایمان ہے اک بحرِ نا پیدا کنار |
دولت و شوکت کے لالچ میں گنوا کر عِزّ و جاں |
اپنی اصلیت کو انساں کر رہا ہے داغدار |
کتبہ پڑھتے ہی کہا اچھّا بچارا مر گیا |
پھر دعا کو ہاتھ اٹھائے دیکھ کر میرا مزار |
تم نے مجھ سے کر لیا ترکِ تعلّق کیا عجب |
مَیں وہی ہوں اب بھی ہمدم تیرا دلبر جاں نثار |
مفلسی نے کر دیا کتنے گھرانوں کو ذلیل |
جھونپڑی میں دن کو بھی راتوں کے عریاں کاروبار |
لاکھ دعوے شیخیاں اسراف این و آں مگر |
آخرش کو ہے بنی آدم فقط مشتِ غبار |
اوروں کو پند و نصیحت خود فضیحت کا شکار |
درگزر فرما خطا کاروں سے اے پروردگار |
معلومات