منزلوں کی جستجو میں زخم کاری کیا گنوں
فائدہ اب کیا ملے گا اور پیچھے کیا ہٹوں
ہے سمجھ سے ماورا عالم یہ سارا عشق کا
پل میں قربت پل میں دوری اس پہ جاناں کیا کہوں
بے بسی کے باب میں ان کو جو پروا کچھ نہیں
درد ان کے عشق میں کتنا سہوں کیسے سہوں
زندگی کے نام پر کاٹا سفر اس دشت کا
وقت ہو تو بیٹھ کر بس خار پاؤں کے چنوں
عمر بھر اس کی لگن تھی پر گھڑی کیسی ہے یہ
اب اسی آواز کو دل ہی نہیں تو کیا سنوں
ہم نے اپنے خون سے سینچا تمہارے درد کو
درد خود کہنے لگا دلدارِ من کتنا بہوں
صورتِ احوالِ دل ظاہر ہے ساری شعر سے
ماسوا اس کے اُویس ان سے بھلا کتنا کہوں

0
5