گزرگاہِ محبت میں بہت بیمار بیٹھے ہیں
پتنگے جان دینے کے لیے تیار بیٹھے ہیں
دلوں کو موہ لیتے ہیں جو اپنی پیاری باتوں سے
چھپاکر آستینوں میں وہی تلوار بیٹھے ہیں
غریبوں سے چراکر مالداروں کو کھلاتے ہیں
ہمارے شہر میں ایسے کئی دلدار بیٹھے ہیں
ہمیں برباد کرنے کی جنہوں نے سازشیں کی تھیں
اداکاری تو دیکھو بنکے اب غمخوار بیٹھے ہیں
جہاں درد و الم کی ہر گھڑی سوغات بٹتی ہے
مرے اپنے اسی دہلیز پر ہر بار بیٹھے ہیں
دکھاوے کی محبت کو پرکھنا جانتا ہوں میں
شکاری جال پھیلائے ہوئے بیکار بیٹھے ہیں
کسے اپنا کہوں طیب کسے بتلاؤں رازِ دل
یہاں اپنوں کی چادر اوڑھ کر اغیار بیٹھے ہیں
محمد طیب برگچھیاوی سیتامڑھی

144