نہ وضعِ حرف ہی بدلی نہ اندازِ بیاں بدلا |
زمیں بدلی نہ ہم بدلے نہ رنگِ آسماں بدلا |
عتاب و خشم و جوش و غصّہ و طیش اب بھی ہے یا کچھ |
عتاب و خشم و جوش و غصّہ و طیشِ بتاں بدلا؟ |
سیاست سے ہمیں وابستگی ہے اس قدر یعنی |
کسی نے شور ڈالا، سُن گیا، اک حکمراں بدلا |
محلّہ دل کا غیر آباد تھا، تم نے کیا آباد |
وصال و ہجر یک صورت، یہاں سے واں مکاں بدلا |
گئے دن بادیہ پیمائی کے مجنوں! تمھارے سنگ |
گرفتارِ چمن ہونے کو تھے سو رازداں بدلا |
جفا کی خُو گئی، وہ مہرباں ہونے لگا ہم پر |
سو مایوسی ہوئی، تھک ہار کر نامہرباں بدلا |
جو پہلے دل تھا اب سر ہو گیا اس ظلم پیشہ کا |
وہی تیرِ نگہ، ابرو کماں، اس نے نشاں بدلا |
سرِ بازار رازِ دوستی کُھلنے ہی والا تھا |
بہت مشکل کہیں جا کر سخن زیرِ زباں بدلا |
جو آئے، آئے بھی تنہاؔ، گئے بھی تو گئے تنہاؔ |
جنم سے نزع تک روئے، نصیب اپنا کہاں بدلا |
معلومات