اک نوجواں ہے میرے تخیل پہ جانثار
پڑھتا ہے شعر میرا ہوتا ہے اشک بار
کہتا ہے شاہؔ صاحب کچھ کیجیے ذرا
فریاد دردِ دل کی لایا ہے خاکسار
تحریر کی کشش سے پتھر بھی موم ہے
اشعار بھی ہیں تیرے دلکش وہ دل نگار
سنتا ہوں جب بھی تیرے اشعار اور غزل
لگتا ہے ایسے جیسے شاہؔی کا شاہکار
کردے مراد پوری اس ناتواں کی اب
قلم و زباں کا ساحر اردو کا شہسوار
کہتی ہے بزمِ عالم، اقبالؔ کی طرح
ہوتے ہیں رازِ پنہاں تجھ پر بھی آشکار
نظم و غزل میں یکتا اہلِ سخن میں فردا
غالبؔ سا میرؔ سا تو بھی ہے دستکار
مقبول اس قدر ہے " شاہؔی تخیلات"
جیسے ہو انجمن میں یکتائے روزگار
محکومیت کا منکر حاکم خیال ہے
سلطانیت پسند ہے رہتا ہے باوقار
فنِ سپہ گری میں ماہر بھی خوب تر ہے
رکھتا شوقِ سلطاں ہے ذوقِ تاجدار
اس دور کی سیاست میں خوب ہے مگن
ہر جا کہ کر رہا ہے راہیں بھی استوار
خود کی زبانی میرا قصہ وہ کہہ رہا تھا
کہتا تھا زندگی کا قصہ ہے یادگار
اک نوجوان شاعر ہے میری انجمن میں
خوش گفتگو ہے لیکن رکھتا ہے دل فگار
اس شاعرِ جواں کی کوشش یہی ہے واللہ
قبضے میں ہوگا اک دن عالم کا اختیار
علم و ہنر کا شوقیں لیکن کہ خوب ہے وہ
اپنے فنون میں بھی ماہر ہے ہونہار
مشہور کم سنی میں اتنا وہ ہوگیا ہے
مداح اس کے لاکھوں، عربوں ہیں بے شمار
فطرت نے بھی غضب کا زورِ قلم دیا ہے
بزمِ سخن کو اس کا ہوتا ہے انتظار
الزام اس کی ہستی پر یہ بھی ہے کہ وہ
اقبالؔ کا تخیل لاتا ہے مستعار
کیا خوب شعر گوئی آتی ہے اس جواں کو
اس کی غزل سے زینت پاتے ہیں اشتہار
اصنافِ شاعری میں بھی لاجواب ہے وہ
ہوتا ہے شعر و مصرع عیبوں سے رستگار
لیکن کہ شعر گوئی کرتا ہے اس طرح وہ
ہوتے ہیں لوگ آنی خطروں سے ہوشیار
اس شاعرِ زماں کا دعویٰ ہے یہ کہ وہ
اسلام کے چمن کا واحد ہے آبیار
رکھتا ہے دل میں زندہ عہدِ کہن کا عزم
خالدؔ کا شوق و جذبہ میدانِ کارزار
فاروقؔ کی جلالت صدیقؔی بردباری
عثمانؔ کی سخاوت حیدرؔ کی ذولفقار
وہ مرد ہو کے رہتا ہے " فائز المرام "
عزموں کی پختگی سے توڑے جو کوہسار
اس کی نگہ کی آتش بازی کا کیا کہوں میں
آنکھوں میں وہ غضب ہے جوں تیغِ آبدار
امت کی خستہ حالی ملت کی بے بسی پہ
وہ خوش مزاج ہر وقت روتا ہے زار زار
اس دل کا کیا کہوں میں جو اس کے پاس ہے
ہر چیز ہے میسر پھر بھی ہے بیقرار
ملت کے غم میں گھل کے ناسور ہو گیا ہے
کٹتے ہیں دن پریشاں راتوں میں اضطرار
دیکھا ہے میں نے جب بھی اس دل جلے جواں کو
تنہائیوں میں اکثر روتا ہے زار زار
آنکھیں گڑی ہیں اس کی آئندہ دور پر
ہیں دور رس نگاہیں نظریں ہیں آرپار
کہتا ہے میں کروں گا تسخیرِ کائنات
خواہش ہے کائناتِ عالم کا اقتدار
بدقسمتی ہے اس کی جو بزم میں سدا
کرتا ہے بات حق کی ہوتا ہے شرمسار
تنہا بیچارہ لیکن وہ کیا کرے جہاں میں
اسکے رفیق سارے دیتے ہیں اس کو عار
کہتا ہے أہلِ محفل سے دیکھ تو ذرا
ہے خون سے اٹا اب بھارت کا یہ دیار
پر اس کے ہم نشیں سب کیسے یہ دیکھ پائے
آنکھوں میں دھول ہیں اور چشموں پہ ہے غبار
کیسے رہیں سیاست کے خار و خس میں ہم
کہتے ہیں اہلِ محفل وادی ہے خاردار
مایوس ہوگیا ہے جب سے وہ بزم سے
تب سے وہ دوسروں پہ کرتا نے اعتبار
یہ اس کی جانفشانی کی خاص ہے روش
کہ بزدلوں کی سنگت ہوتی ہے ناگوار
دنیا کو اپنی سوزش سے راکھ کر نہ دے وہ
چنگاری اس کے دل میں سرکش ہے شعلہ بار
دنیا مخالفت پر گرچہ اتر ہی جائے
ہے عزم کا وہ پیکر موقف پہ برقرار
باطل شکن جواں ہے ملت کا پاسباں ہے
کہنہ صفات اس میں ہے خوۓ یارغار
اک انقلاب اسکے پیشِ نظر ہے جو
کرتا ابھی سے ہے وہ ماحول سازگار
میں بھی سمجھ نہ پایا ہستی کہ اس کی کیا ہے
اب سے بنا ہے بیٹھا قدرت کا رازدار
سوتوں کو جو جگا دے غافل کو ہوشیار
خالی ہے ایسے بلبل سے اب کہ مرغزار
اس مردِ با بصیرت کی داستاں کو سن کر
اب سنگِ دل کو میرے آیا ہے اس پہ پیار
اک لفظ کا اضافہ بالکل نہیں کیا ہوں
سچ کہہ رہا ہوں میں کہ گرچہ ہوں طرفدار
مانو نہ مانو لیکن اے ہند کے امامو
سچ ہے یہی کہ اس کی باتیں ہیں جاندار
ہو کامیاب اپنے مقصد میں اے خدا
وہ نوجواں ہو عالم میں نیک و بختیار
اس شوخ خوبرو کی عظمت جو دیکھے میں نے
میں نے کہا کہ رکھیو مجھ کو بھی دوستدار

2
51
" میرے تخیل "

ت خیل