اشک جب آنکھ سے گرتے ہیں تو مر جاتے ہیں |
صبر سے کام نہ لیں ہم تو بکھر جاتے ہیں |
جھیل سی آنکھوں میں ان کی مہِ روشن اتریں |
آئینے دیکھ لیں ان کو تو نکھر جاتے ہیں |
صبح دم نکلے تھے اب لوٹ کے جائیں ہم بھی |
شام ہوتے ہی پرندے بھی تو گھر جاتے ہیں |
شب گزاری کے لئے خواب ضروری تو نہیں |
دن تو سوچوں میں جہاں چاہے گزر جاتے ہیں |
رات جب گزری سفر میں ہے تو آرام کریں |
تھک کے تارے بھی تو گھر وقتِ سحر جاتے ہیں |
اٹھو سامان سمیٹو ہے سفر کٹنے کو |
جب بھی آ جاتی ہے منزل تو اتر جاتے ہیں |
سن کے الزام کسی کا نہ پڑیں مشکل میں |
بس ہمارا جو چلے ہم بھی تو دھر جاتے ہیں |
وقت دم لینے کو رکتا نہیں دیکھا اب تک |
ہم ہی تھک جاتے ہیں جب دوجے نگر جاتے ہیں |
قبر میں ڈال کے جب جاتے ہیں اپنے طارق |
تب حوالے وہ خدا ہی کے تو کر جاتے ہیں |
معلومات