احبابِ بزم کو ہے یہ شکوۂ دوام
بھاتا نہیں ہے تجھ کو بے سیف یہ نیام
نا آشنا ہو شاید سوزِ جہانِ غم سے
بنتے کہاں ہیں تجھ سے غالؔب سا اک کلام
اک ذرہ بھی نہیں ہے گردِ رہِ سخن داں
مرزاؔ کی شعر گوئی، نہ رباعئی خؔیام
،
کیوں ہو شکارِ رنجش، آزردہ دل لئے ہو
جتنا ملا ہے تجھ کو اتنا ہی پہلے تھام
نے مے کشی کی لت ہے، نے دارو دردِ دل ہے
نے رنگ خوں نما ہے، یہ حناۓ دستِ فام
نے جان و دل ہراساں، نے رنج و غم کا ساماں
نے بال و پر پریشاں، خستہ ہے تیرا دام
،
کیوں دیکھتا ہے نائم! خوابِ عدم میں رویا
شاعر ابھی نہیں بن ،ہستی ہے تیری خام
یہ بے تکی رباعی، یہ بے تکے غزل
دنیا مدح سرا ہو کچھ ایسا کر تو کام
دریا کی سی روانی، طوفاں کا ہو سکوت
بوسہ گہِ قدم ہو، اوج و عروج و بام
،
انگلی فگار تیری ،اور خامہ خوں چکاں ہو
بلبل پے بھی اثر ہو، یہ نغمہ ہاۓ شام
یہ میرؔ و مرؔزا کیا ہیں بازارِ شاعری میں
انمول تیری ہستی، ہے جوہرِ بے دام
اقبالؔ تیری منزل، ہے فکرِ حیاتِ امہ
بن گوہرِ یگانہ، کہ دنیا لگاۓ دام
،
شاہی خیال ہے تو شاہی شعار تیرا
شاہانہ زندگی ہے، شاہؔی ہے تیرا نام
صد آفتاب روشن، تیرے چراغِ شب میں
ہر روشنی کی لے میں، پنہا ہے اک پیام
پہچان اپنی ہستی، طرزِ سخن، تراش!
غالؔب سے بھی بڑا ہے، رتبہ ترا امام
،
ہر ایک کامیابی ،کو شرط ہے الام
آزار کے بنا ہی، ملتے نہیں مقام
ہے یہ رجوع نامہ ثانؔی کا شاؔہ کو
چلتا ہوں انجمن سے، رکھیو مرا سلام
حیران ہے ثریا، پروازِ آب و گل پہ
رکھتا لقب ہے شاہیؔ، ادنی سا یہ غلام
،
تو خاک ہے و لیکن ،خاکی نہیں ہے تجھ میں
گردوں سے بھی پرے ہی ،ہوگا ترا قیام
کچھ شربتِ خضر ہو، کچھ جامِ بے خمار
کچھ اَور ہو گا اب سے، مے خانے کا نظام
نوخیز کی ضمانت، لیتا اسؔد ہے بیگ !
دنیا کو بھی سنا دو، غالؔب کا یہ پیام
،
صبحِ طلوعِ شاہؔی ،ہونے کو بے قرار
ہے بزمِ شعر گو میں، ثانؔی کی ہوئی شام
لہجے نئے میں اب سے ،ہوں گے ہم کلام
قصہ یہ مختصر اب، ہوتا ہے یوں تمام
آزاد ہو گیا تو ہر قید و بندِغم سے
جا جس طرف بھی چاہے قبضے میں ہے زمام
،
یہ انقلاب لمبے سفر کا ہے اختتام
منزل کو پا چکا ہے مسافر ہوا تمام

2
60
شکریہ

شکراً لک