آشنائی ہوئی نصیب، نصیب
کر لیا یار نے قریب، نصیب
مرضِ عاشقی کے مشکل وقت
مر گئے شہر کے طبیب، نصیب
میں تو عیسیٰؑ مسیح تھا اس کا
کھا گیا گُھن مری صلیب، نصیب
تیری محفل میں دیکھتا ہوں، غیر
مجھ پہ دے دے نکال جِیب، نصیب
”قُلۡ ہُوَ اللّٰہ“ پڑھنی آتی تھی
بن گئے شیخ جی خطیب، نصیب
پیار میں ہم نے کیا کسر چھوڑی
تیز نکلا مگر رقیب، نصیب
اچھا خاصا سخن طراز تھا، حیف!
خودکشی کر گیا شکیبؔ، نصیب
بوسہ مانگو، طمانچہ دے اُلٹا
اپنا معشوق ہے عجیب، نصیب
میں ہی تنہاؔ نہیں یہاں مفلوک
شعراء ہوتے ہیں غریب، نصیب

120